loveHeader Ads

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ نویں قسط

ممیں نے گردن گھما کر صالح کی طرف دیکھا۔ اس کا چہر ہ ہر قسم کے تأثر سے عاری تھا اور وہ مستقل مجھے دیکھے جارہاتھا۔ میری توجہ اپنی طرف مبذول پاکر وہ بولا:
’’عبد اللہ! تم میدان حشر کے احوال جاننے کے شوق میں اپنی جگہ چھوڑ کر یہاں آئے ہو تو ایسے بہت سے مناظر ابھی تمھیں اور دیکھنے ہوں گے۔ میں تمھیں مزید صدمات سے بچانے کے لیے ابھی سے یہ بات بتارہا ہوں کہ تمھاری بیوی، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں میں سے تمھاری ایک بیٹی لیلیٰ اور ایک بیٹا جمشید اسی میدان میں خوار و پریشان موجود ہیں۔‘‘
صالح کی یہ بات سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے چکر سا آیا اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ صالح میرے ساتھ ہی زمین پر خاموش بیٹھ گیا۔

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ آٹھویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر یہاں کسی کو کسی کی کوئی پروا نہیں تھی۔ کوئی کیوں بیٹھا ہے؟ کیوں کھڑا ہے؟ کیوں لیٹا ہے؟ کوئی کیوں رو رہا ہے؟ کیوں چیخ رہا ہے؟ کیوں ماتم کررہا ہے؟ یہ کسی کا مسئلہ نہیں تھا۔ آج سب کو اپنی ہی پڑی تھی۔ ایسے میں کوئی رک کر مجھ سے میرا غم کیوں پوچھتا؟ لوگ ہمارے پاس سے بھی بے نیازی سے گزرتے چلے جارہے تھے۔ کچھ دیر بعد میں نے صالح سے پوچھا:
’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’ظاہر ہے حساب کتاب ہوگا۔ پھر اس کے بعد ہی کوئی حتمی بات سامنے آئے گی۔‘‘
اس کا جواب دوٹوک تھا۔ پھر وہ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بولا:
’’پچھلی دنیا میں جن لوگوں نے آج کے دن کی حاضری کو اپنا مسئلہ بنالیا تھا اور وہ اسی کے لیے جیے، چاہے وہ ایمان و اخلاق کے تقاضے پورے کرنے والے صالحین ہوں یا خدا کے دین کی نصرت کو اپنا مسئلہ بنانے والے اہل ایمان، سب کے سب اس طرح اٹھائے گئے ہیں کہ ان کی نجات کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ان لوگوں نے زندگی میں صرف نیکیاں کمائی تھیں۔ خالق و مخلوق کے حقوق پورے کیے تھے۔ چنانچہ ان کی موت ہی ان کا پروانہ نجات بن کر سامنے آئی تھی اور حشر کے دن انہیں شروع ہی سے عافیت نصیب ہوگئی۔‘‘
’’مگر گناہ تو سب کرتے ہیں۔ تو کیا ان لوگوں نے گناہ نہیں کیے تھے؟‘‘، میں نے پوچھا۔
’’ہاں گناہ انہوں نے بھی کیے تھے، مگر ان کے چھوٹے موٹے گناہ ان کی نیکیوں نے ختم کردیے اور اگر کبھی کسی بڑے گناہ سے دامن آلودہ ہوا تو انھوں نے فوراً توبہ کے آنسوؤں سے ان داغوں کو دھودیا تھا۔ ایسے تمام صاف ستھرے پاکیزہ لوگ اس وقت عرش کے سائے کے نیچے موجود ہیں۔ ان لوگوں کا رسمی حساب کتاب ہوگا جس کے بعد ان کی کامیابی کا اعلان کردیا جائے گا۔
اس کے برعکس جن لوگوں کے نامہ اعمال میں کوئی ایسا بڑا جرم ہوا جو ایمان ہی کو غیر مؤثر کردے جیسے کفر، شرک، منافقت، قتل، زنا، زنابالجبر ،ارتداد، یتیموں کا مال کھانا، اللہ کی حدود کو پامال کرنا اور اسی نوعیت کے دیگر جرائم وغیرہ، تو میزان عدل میں ایسے لوگوں کے گناہوں کا پلڑا بھاری ہوگا اور انہیں جہنم کی سزا سنادی جائے گی۔‘‘، صالح نے قانون کی تفصیلی وضاحت کی۔
’’لیکن انسان تو ان دو انتہاؤں کے درمیان بھی ہوتے ہیں۔ ان کا کیا ہوگا؟‘‘، میں نے سوال کیاتو صالح نے جواب دیا:
’’ہاں ان دو انتہاؤں کے درمیان وہ لوگ ہیں جن کے پاس ایمان اور کچھ نہ کچھ عمل صالح کا سرمایہ بھی ہے، مگر وہ دنیا میں گناہ بھی کرتے رہے اور توبہ بھی نہیں کی۔ ایسے لوگوں کو اپنے گناہوں کی پاداش میں حشر کے دن کی سختی جھیلنی ہوگی، اس کے بعد نجات کا کوئی امکان پیدا ہوگا۔ آج جو لوگ میدان حشر میں پھنسے ہوئے ہیں وہ یا تو مجرمین ہیں جنہیں آخر کار جہنم میں پھینکا جائے گا یا پھر وہ اہل ایمان ہیں جن کا دامن گناہوں سے داغدار ہے۔ سو جس کے گناہ جتنے زیادہ اور جتنے بڑے ہوں گے آج کے دن اسے اتنا ہی خوار و خراب ہونا ہوگا۔ کم گناہ والوں کو حساب کتاب کے آغاز پر ہی نجات مل جائے گی۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا کہ دنیا کی زندگی کے سیکڑوں برس تو گزرچکے ہیں۔ ان لوگوں کو ابتدا میں نجات بھی ملی تو یہ حشر کی سختی دنیا کی پچاس سالہ زندگی کے گناہوں کا نشہ ہرن کرنے کے لیے بہت ہے۔ جبکہ جن کے گناہ زیادہ ہیں ان کو تو نجانے ابھی کتنے ہزار یا لاکھ سال تک اس سخت ترین ماحول کی شدت، سختی اور ہول جھیلنا ہوگا۔‘‘
صالح کی بات سن کر میں نے دل میں سوچا کہ دنیا میں گناہ کتنے معمولی لگا کرتے تھے، مگر آج یہ کس طرح مصیبت میں ڈھل گئے ہیں۔ کاش لوگ اپنے گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھتے اور مستقل توبہ کو اپنا معمول بنالیتے۔ وہ غیبت، چغل خوری، اسراف، نمود و نمائش، الزام و بہتان وغیرہ کو معمولی چیز نہ سمجھتے۔ اللہ اور بندوں کے حقوق کی پامالی کو چھوٹا نہ خیال کرتے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتے اور رسولِ کریم ﷺکی پیروی کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا جہاں ایک گناہ کی تھوڑی سی لذت سیکڑوں برس کی خواری میں بدل چکی ہے۔
پھر میں نے اس سے دریافت کیا:
’’کیا اس وقت کسی کو یہ معلوم ہے کہ اس کی نجات ہوگی یا نہیں اور ہوگی تو کس طرح ہوگی؟‘‘
صالح نے جواب دیا:
’’یہی اصل مصیبت ہے۔ یہاں کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اس کا مستقبل کیا ہے۔ نجات کی کوئی امید ہے یا نہیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ اسی لیے رسول اللہ اور دیگر انبیا مسلسل یہ دعا کررہے تھے کہ حساب کتاب شروع ہوجائے۔ اس کے نتیجے میں اہل ایمان کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ مجرمین سے الگ ہوکر حساب کتاب کے بعد نجات پاجائیں گے۔ تم جانتے ہو آج کے دن انفرادی طور پر نہ کسی کے لیے زبان سے کوئی حرف نکالا جاسکتا ہے اور نہ اس کی کوئی گنجائش ہے۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ کی یہ دعا قبول ہوچکی ہے۔ یہ بات خلیفہ رسول ابو بکر صدیق نے تمھیں خود بتائی تھی۔‘‘
’’مگر ابھی تک حساب کتاب تو شروع ہوتا نظر نہیں آتا۔‘‘، میں نے حیرت سے پوچھا تو صالح بولا:
’’دعا قبول ہوئی ہے، مگر اس پر عملدرآمد اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے تحت ہی کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ابھی تک پوری دنیا سے لوگ قبروں سے نکلنے کے بعد یہاں پہنچے ہی نہ ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب لوگ اتنے برسوں میں بھی یہاں تک نہیں آئے؟‘‘
’’تمھارا کیا خیال ہے کہ آج لوگ ہوائی جہاز، ریلوں، بسوں، اور موٹروں میں بیٹھ کر یہاں تک آئیں گے؟ آج سب پیدل دوڑتے آرہے ہیں۔ اسرافیل کے صور نے لوگوں کو اسی سمت آنے کے لیے مجبور کردیا تھا۔ آج سمندر پاٹ دیے گئے ہیں اور پہاڑ ڈھادیے گئے ہیں۔ اس لیے لوگ سیدھا یہاں آرہے ہیں، مگر ظاہر ہے پیدل آتے ہوئے وقت تو لگے گا۔ البتہ صالحین کے ساتھ فرشتے تھے جو انہیں فوراً یہاں لے آئے۔ بہرحال جب تک حساب کتاب شروع نہیں ہوتا، ہم یہاں موجود لوگوں کے احوال دیکھ لیتے ہیں۔ ویسے شاید تم اسی مقصد کے لیے یہاں آئے تھے۔‘‘
صالح نے یہ الفاظ کہے اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر میرا ہاتھ تھامے آگے بڑھنے لگا۔
جاری ہے
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے

No comments

thank you for comment

Theme images by RBFried. Powered by Blogger.